مرجع مسلمین و شیعیان جہاں فقیہ اہل بیت ؑ عصمت و طہارت حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ الحاج الشیخ حافظ بشیر حسین النجفی (دام ظلہ الوارف)

مرجع مسلمین و شیعیان جہاں فقیہ اہل بیت ؑ عصمت و طہارت حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ الحاج الشیخ حافظ بشیر حسین النجفی (دام ظلہ الوارف)

4/1/2016




بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین و الصلاة والسلام علی خیر خلقہ خاتم الانبیاء و المرسلین ابی القاسم محمد و آلہ الطاہرین المظلومین و اللعنة الدائمة علی اعدائھم وظالمیھم الی یوم الدین.

علم ِسماج میں یہ ایک ثابت شدہ اور تسلیم شدہ امر ہے کہ کسی بھی مولود کی فکری جود و نمود اور ارتقاء ِ عقلی پراثر انداز ہونے والاسب سے پہلا عنصر وہ گھرانہ ہے کہ جس کے سائے میں وہ پروان چڑھتا ،جس کے پروں تلے اس کے قرطاسِ عقل پر تہذیب و تمدن کے مختلف نقوش ابھرتے ہیں اور جس کی آغوش میں اس کی شخصیت مختلف صفاتی اختراعات کے رنگ میں رنگی جاتی ہے ۔

پس اس بناء پر ہم اس مختصر تعارف میں اس نشیمن سے تیزی سے گزرتے ہیں کہ جہاں کے معطر پھولوں کی ہم جلیسی اور پاکیزہ نفوس کی رفاقت میں آیت اللہ العظمیٰ .......نے نشو ونما پائی۔

الشیخ ،المجدد، المجتہد،الکبیر،الفقیہ،المحقق، الاصولی ،المنطقی ،شیخ الاسلام ،الحافظ بشیر حسین نجفی بن صادق علی بن محمد ابراہیم بن عبداللہ ہندوستان کے شہر جالندھر (پنجاب )میں 1942ء میں ایسی اعلیٰ اقدار کے حامل گھرانہ میں پیدا ہوئے کہ جس کے فضل و کمال اور علمی منزلت کی کرنیں پورے علاقے میں پھیلی ہوئی تھیں ۔

آیت اللہ العظمیٰ ........  کے جد امجد ایک معروف علمی اور سماجی شخصیت تھے کہ جن کا مہمان سرا  ہر عالی و دانی کی آماجگاہ اور ہر مکتب ِفکر سے تعلق رکھنے والے کے لئے انتہاءِ طریق اور ہر حق کے متلاشی کے لئے منزل مقصود تھا ۔

آیت اللہ العظمیٰ  ........  کے دادا مرحوم کا دیوان خانہ ہر وقت لوگوں سے بھرا رہتا تھا اور وہاں مختلف نظریات اور مختلف مکاتبِ فکر کے بارے میں بحث و مباحثہ اور مناظرات جاری رہتے تھے ۔ اور ان کی وفات کے بعد آیت اللہ العظمیٰ  ........  کے والد مرحوم نے اپنے والد کی سیرت کو اختیار کیا اور ساری زندگی انسانیت اور سماج کی خدمت کے لئے وقف کر دی ۔

پس آیت اللہ العظمیٰ  ........  نے محبت اہلبیت  سے سیراب اور بہار ِایمان کے عروج کے صدقے سر سبزو شاداب درختوں کے سائے میں اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا اور ایسی ہوا میں نشوونما پائی کہ جس کا ہر جزء دین ،مذہب اور انسانیت کی خدمت کے پاکیزہ جذبوں سے معطر تھا ۔

آیت اللہ العظمیٰ  ........  کے والد اور والدہ دونوں ہی اپنے بیٹے کو صحیح اسلامی تربیت کے ساتھ آراستہ و پیراستہ کرنے ،اسلامی تمدن سے مزین کرنے اور اس کی عقل کی زرخیزکھیتی میں معارف الٰہی اور علوم ِ دین کی کاشت میں ہمہ وقت کوشاں رہتے ۔

تعلیمی سفر

 آیت اللہ العظمیٰ  ........ نے رزق ِ علم کے حصول کی ابتداء اپنے گھر سے ہی کی اور اپنے دادا جناب محمد ابراہیم مرحوم اور اپنے چچاجناب خادم حسین جعفری کے پاس عربی گرائمر ،صرف ،نحو اور فقہ وغیرہ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر لاہور میں آیت اللہ اختر عباس قدس سرہ کے پاس زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان کے علمی فیض سے کافی عرصہ تک استفادہ کرتے رہے لیکن اس پورے عرصہ میں ہمیشہ علمی تشنگی ایک لاعلاج مرض کی طرح دامن گیر رہی ،علمی رفعتوں کو چھونے کی تمنا میں فکر ہمیشہ کسی براق کی تلاش میں گھومتی پھری اوربحر ِ علم میں موجود جزیروں کی جستجو روح و جسم پہ حاوی رہی۔

نجف اشرف کی طرف ہجرت

علوم و معارف کے بکھرے خزانوں کو یکجا پانے اور ان کے حصول کی ناختم ہونے والی تمنا نے باب مدینة العلم پر دستک دینے کا عملی اعزاز حاصل کرنے پر مجبور کیا ،اپنے سنہرے خوابوں کو تاج ِتعبیر پہنانے کے لئے آپ نے لباسِ سفر زیب ِ تن کیا اور سن1965ء میں نجف اشرف کے عظیم حوزہ علمیہ میں داخلے کے لئے کوچ کے نقارہ کو فضاؤں ،ہواؤں اور بدلتی ہوئی تاریخ کی کھردری پیشانی پر ثبت کر دیا ۔

نجف اشرف کی علم و ادب اور عرفان پہ مبنی تصدیقاتی اور تخلیقاتی دہلیز پہ قدم رکھتے ہی اجتہاد و مرجعیت کی ہمالیہ نما بلندیوںکو سر کرنے کے لئے آپ نے امیر المومنین  کے مقدس و مبارک جوار کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور زندگی کو اہل بیت  کے بحرِعلم کی گہرائیوں سے لعل و جواہر چننے اور شیعیانِ علی  میں بانٹنے کے لئے وقف کر دیا ۔

آپ نے علمی تشنگی کو مٹانے کے لئے امیر المومنین  کے اُس جوار کو اپنا مسکن قرار دیا کہ جہاں علمی رفعتیں سر بخم نظر آتی ہیں جہاں چلنے والی ہوا امیر المومنین  کی ضریح کے چرنوں کو چومتی اور اس کے سنہرے گنبد کو سلامی دیتی ہوئی اپنے دامن میں انمول موتی سموئے سانسوں سے اس طرح گزرتی ہے کہ جیسے عطر و خوشبو اور پھولوں کی مہک سے بھرے چمن سے گزر کر کوئی ہوا ہمارے سانسوں سے ٹکرا جائے ۔

فکری آئینوں کو علوم ِ اہل بیت  سے مزید مزین کرنے اور ان پر علمی ارتقائی نقش و نگار اور پھول بوٹوں کو کندا کرنے کے لئے نجف اشرف میں آتے ہی آپ نے اُس وقت کے معروف اور قابل ترین اساتذہ کے پاس زانوئے ادب تہہ کیا اور ان سے بہت سے علوم میں کسبِ فیض کیا ۔ آپ کے اساتذہ میں سے قابلِ ذکر شخصیات میں حضرت آیت اللہ الشیخ محمد کاظم تبریزی  بھی شامل ہیں کہ جن کے پاس آپ نے کفایہ اور بحث خارج کا کچھ حصہ پڑھا ۔آیت اللہ العظمیٰ الشیخ محمد حسین اصفہانی   کے لائق ترین شاگرد اور حوزہ کے قابل ترین استاد آیت اللہ العظمیٰ سید محمد روحانی   کے اصول وفقہ کے درسِ خارج میں مسلسل سات سال سے زیادہ شرکت کی۔ اور استاد المراجع آیت اللہ العظمیٰ سید ابو القاسم خوئیؒ   کے پاس اصول اور فقہ کے درسِ خارج میں تقریباً اٹھارہ سال سے بھی زیادہ عرصہ حاضر ہوتے رہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ خود بھی درس خارج اور مختلف علوم سے طلاب کو زیور علم سے آراستہ کرتے رہے۔

تدریسی خدمات

 جس طرح آیت اللہ العظمیٰ.... میں ہمیشہ سے ہی قرآن کی ظاہری و باطنی حقیقتوں کو جاننے اور فقہ ِ آل محمدؐ کے الہامی اسرار و رموز کو پہچاننے اور علومِ اہل بیت کی وسیع تر کائنات میں مسافتوں کو طے کرنے کا شوق عروج و معراج کی منزلوں کو چھو تارہا ہے اسی طرح ان علوم کے تحفظ و پاسداری اور پھیلانے کا جذبہ بھی اپنی بلندیوں میں بے مثل و بے مثال ہے ۔

آیت اللہ العظمیٰ  ........ کافی عرصہ تک جامعة المنتظر(لاہور) میں تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے اور پھر نجف اشرف میں آنے کے بعداپنی قابلیت اور علومِ اہل بیت کو پھیلانے کے پاکیزہ جذبے کے تحت  سن 1966ء میں تدریس کا باقاعدہ آغاز کیا اور مختلف ادبی منطقی، فلسفی ، اصولی اور فقہی علوم کے ذریعے طلاب کے شعورو عقل کو منور کرنے کی سعادت حاصل کرنے لگے ۔

آیت اللہ العظمیٰ  ........  نے فقہ اور اصول کا درسِ خارج پڑھانے کی ابتداء سن 1974ء میں کی اور آج تک بغیر کسی وقفہ کے درسِ خارج پڑھانے میں مشغول ہیں۔نجف اشرف میں موجود علماء ،فضلاء اور آیت اللہ العظمیٰ کے شاگردوں سے مسلسل میں نے یہ بات سنی اور اور اپنی بے بضاعت علمی عقل و فکر سے دیکھی ہے کہ درسِ خارج اور دوسرے علوم کی تدریس و ترویج کے حوالے سے آیت اللہ العظمیٰ حافظ بشیر حسین نجفی جیسی بلند پایہ شخصیت پوری دنیا میں بے مثل و بے مثال اور ناپیدہے۔ آپ تمام علمی مطالب ،علمی اعتراضات و مشکلات کے حل ،قرآنی الفاظ کی تشریح آیات کی لفظی توضیح، روایات میں تعادل و ترجیح اور ہر طرح کی اعتقادی ترشیح کو اپنے گلدانِ فکر میں ہر وقت یوں سجائے رہتے ہیں کہ گویا ابھی ابھی گلستانِ علم سے تر و تازہ چن کر لائے ہوں ۔ تدریس میں ایسے متوازی اور معیاری طریقہ کو اختیار کرتے ہیں کہ نہایت عمیق مباحث اور علمی مطالب کو بھی تفہیم کے سادہ ترین سانچے میں ڈھال دیتے ہیں اور سامعین کو کرنوں کے سہارے آفتابِ علم تک پہنچنا سکھا دیتے ہیں ۔پوری دنیا اور خاص طور پر نجف اشرف میں ہزاروں علماء و فضلاء بالواسطہ یا بلا واسطہ آپ سے کسبِ فیض کرنے کے بعدتشنگانِ علم کو سیراب کر رہے ہیں آپ کے شاگردوں میں ایسے افراد بھی ہیں کہ جو   درسِ خارج پڑھانے کی سعادت حاصل کررہے ہیں ۔

تالیفات

 کسی بھی کاتب کا قلم اس کے عقل و شعور کا ترجمان ،اس کے علم کا سفیر اور اس کی فہم و فراست کا علمبردار ہوتا ہے اور جب کسی کے قلم کے سیاہی سفید کاغذ کے چہرے پہ مختلف طرز کی لکیریں کھینچتی ہے تو ان ٹیڑھی ترچھی لکیروں میں صاحب قلم کے علم و کمال کی صورت ابھر کر سامنے آجاتی ہے ۔

ویسے تو درس و تدریس اور بہت سی سماجی خدمات کی انجام دہی کی وجہ سے آپ کی زندگی مصروفیت اور مشغولیت سے بھری ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود بھی مختلف موضوعات اور مختلف علوم کے بارے میں آپ کے قلمی شاہکار ہمالیہ کی چوٹیوں کی طرح آسمان ِ علم کی بلندیوں سے ٹکرا رہے ہیں اور اپنے قدوقامت میں بے مثل و بے مثال ہیں ۔ہم ان شہ پاروں میں سے کچھ کے نام نذر قارئین کرتے ہیں :

٭:الدین القیم  (رسالہ عملیہ کہ جو ٣ جلدوں پر مشتمل ہے)

٭ : وقفة مع مقلدی الموتیٰ

٭:مرقات الاصول

٭: مناسک الحج

٭:خیر الصحائف فی احکام العفائف

٭: مئة سوال حول الخمس

٭ : ھدیہ الناشئة

٭:احکام الصوم

٭:ستبقی النجف رائدة حوزات العالم

         ٭:الخریت العتیدفی احکام التقلید

٭:مصطفی دین القیم

٭:المرشد الشفیق الی حج البیت العتیق

٭:المنھل العذب لمن ھو مغترب

٭:بحوث فقھیة معاصرة

٭:الشعائرالحسینیة ومراسیم العزاء

٭:الی الشباب

٭: شرح معالم الاصول

٭:رسالة فی اعتکاف

٭:ولادت امام مہدی 

٭:رسالة فی احکام الغیبة

        ٭:رسالة فی قاعدة ما یضمن بصحیح

٭:شرح کفایة الاصول

٭: تنقیح الرواة

٭:بحث مفصل فی علم الدرایة

٭:شرح منظومة الحکیم السبزواری  (قسم المنطق )

٭:شرح مطالب القوانین فی الاصول

٭:رسالة فی دائرة الھندیہ و تعیین القبلہ

٭:تعلیقہ علی شرح التجرید

٭:بحث علی ارث شرح اللمعة

٭:رسالة فی احکام الرادیووتلفزیون والتمثیل

٭:رسالة الخمس استدلالیة

         ٭:الغدیر اطالة واعمال

٭:رسالة فی صلاة الجمعة

٭:تائب حبیب اللہ

 ان مذکورہ کتابوں میں سے بعض کا ترجمہ مختلف زبانوں میں بھی شائع ہو چکا ہے ۔

سماجی خدمات

 معاشرے اور انسانیت کی خدمت ہی کسی انسان کے تشخص اور منزلت کی تعیین کی سب سے بڑی علامت ہوا کرتی ہے آیت اللہ العظمیٰ.... کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگی کو معاشرے سے جہالت اور معاشرتی و سماجی مشکلات کو ختم کرنے کے لئے وقف کیا ہوا ہے۔شایدآپ کا کوئی ہی ایسا لمحہ ہوکہ جو سماج کی خدمت سے خالی ہو ۔ہم فقط چند خدمات کو قارئین کی نذر کرتے ہیں :

٭:غریب اور حاجت مند مومنین کے لئے ماہانہ مالی امداد۔

٭: مومنین کا مفت علاج اور وقتاََ فوقتاََ فری میڈیکل کیمپس کا قیام۔

      ٭ :مدارس دار الزہرا الخیریہ کے نام سے متعدد سکولوں کا قیام کہ جن میں یتیم بچے اور غریب مومنین کے بچے جدید ترین تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔

٭: مؤسسہ انوار النجفیہ کے تحت کمپیوٹر اکیڈمی کا قیام کہ جہاں مومنین کو کمپیوٹر سائنس سے روشناس کروایا جاتا ہے۔

٭ : عراق میں موجود ماتمی انجمنوں اور عزاداری برپا کرنے والی تنظیموں کی سر پرستی کہ جس کے تحت مختلف مناسبات پر ان کی ہر طرح سے امداد کی جاتی ہے ۔

٭ : اپنے وکلاء ،معتمدین اور حوزہ کے علماء اور فضلاء کو مختلف علاقوں میں بھیج کر مومنین کو دینی ،سماجی، سیاسی اور ہر طرح کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا ۔

       ٭:مومنین کے گھروں تک بجلی کی مفت فراہمی کے لئے متعدد بڑے جرنیڑوں کی تنصیب کہ جن سے ہزاروں مومنین استفادہ کر رہے ہیں ۔

٭:مساجد ،مدارس اور امام بارگاہوں کی تعمیر اور ترمیم۔

٭:حوزہ کے طلبہ اور اساتذہ کے لئے ماہانہ وظائف، مختلف نقدی اور غیر نقدی انعامات اوران کی میڈیکل ضروریات کی فراہمی ۔

٭ : درسی کتب کی طباعت اور حوزہ میں ان کی فراہمی ۔

٭: حوزوی نصاب کی ازسرِ نو ترتیب اور تجدید۔  

کسی بھی قوم کی تنزلی کا سب سے بڑا سبب جہالت اور مذہب سے ناآشنائی اور رو گردانی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت اللہ العظمٰی...... تعلیم کے فروغ اور دین و مذہب سے متعلق امور کو پھیلانے پر بہت زور دیتے ہیں اورطلاب ،اساتذہ اور تعلیم وتربیت سے منسلک افرادکو بہت عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہر ممکن طریقہ سے تعلیمی مشن  کو  آگے بڑھانے میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔

آیت اللہ العظمٰی  ........  کی خواہش ہے کہ نجف اشرف اور دوسرے ممالک خاص طور پر پاک وہندمیں مومنین کے لئے دینی اور جدیددنیاوی تعلیم کے لئے اعلیٰ اداروں کو قائم کریں تاکہ مومنین ان اداروں میں مفت اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے قوم وملت سے جہالت اور غربت کی لعنت کو ختم کر سکیں۔

اسی طرح آیت اللہ العظمیٰ ........   نجف اشرف میں حوزہ کے طلاب کے لئے ہزاروں گھروں پر مشتمل ایک کالونی اور جدید ترین ہسپتال کے قیام کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ خدا آیت اللہ العظمٰی......  کی زندگی دراز کرے اور ان کی تمام خواہشات کو  پورا کرے اورہمیں ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمایا ۔ (آمین)